بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
ذَٰلِكَ مَتَاعُ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا ثُمَّ مَأۡوَىٰهُمۡ جَهَنَّمُۖ وَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ. سورہ آل عمران، آیت ۱۹۷
ترجمہ: یہ دنیا کی زندگی کا عارضی فائدہ ہے، اس کے بعد ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
موضوع:
اس آیت میں دنیاوی زندگی کی حقیقت اور اس کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے، اور اس کے مقابلے میں آخرت کی سزا کا تذکرہ ہے۔
پس منظر:
سورہ آل عمران کی یہ آیت مشرکین اور کفار کی دنیاوی زندگی کی محبت اور اس کے پیچھے بھاگنے کی مذمت کرتی ہے۔ اس میں دنیا کی زندگی کو عارضی اور آخرت کو حقیقی قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت کے نزول کا مقصد مسلمانوں کو دنیاوی زندگی کی حقیقت سمجھانا اور آخرت کی تیاری کی طرف متوجہ کرنا تھا۔
تفسیر:
- دنیاوی زندگی کی حقیقت: اس آیت میں اللہ تعالیٰ دنیاوی زندگی کو "عارضی فائدہ" کے طور پر بیان کرتے ہیں، یعنی دنیاوی دولت، آسائشیں اور لذتیں سب وقتی ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان فانی چیزوں میں مشغول ہوکر اپنی اصل منزل یعنی آخرت کو فراموش نہ کرے۔
- آخرت کی ترجیح: یہ آیت اس بات کی یاددہانی کراتی ہے کہ دنیاوی زندگی کے لالچ میں آخرت کو نظرانداز کرنا انسان کو جہنم کی طرف لے جا سکتا ہے، جو کہ ایک انتہائی برا ٹھکانا ہے۔ اس لئے مؤمن کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے آخرت کی روشنی میں کرے اور اس کے لیے تیار رہے۔
- انجام کا شعور: آیت میں جس انداز سے جہنم کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ایک شدید تنبیہ ہے کہ دنیا کی عارضی لذتوں کی قیمت پر آخرت کی دائمی سزا سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
- عمل کی اصلاح: دنیاوی زندگی کی حقیقت جان کر انسان کو اپنے اعمال کو درست کرنے اور انہیں آخرت کے معیار کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جہنم کے عذاب سے بچ سکے۔
- آخرت کی کامیابی: اصل کامیابی وہ ہے جو آخرت میں حاصل ہو، اور اس کا دارومدار دنیا میں کئے گئے اعمال پر ہے۔ لہذا، ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور انہیں اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔
نتیجہ:
یہ آیت ہمیں دنیا کی فانی اور عارضی حیثیت کو سمجھنے اور آخرت کی تیاری پر توجہ دینے کی تعلیم دیتی ہے۔ مسلمان کو دنیاوی زندگی کی عارضی خوشیوں میں نہیں بہکنا چاہیے بلکہ آخرت کی کامیابی کو ترجیح دینی چاہیے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ آل عمران